سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) ایک مرتبہ پھر سرخیوں میں ہے، جب وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم (CMIT) کی ایک خفیہ مگر دھماکہ خیز رپورٹ منظر عام پر آ گئی ہے۔ 45 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ادارے کی کارکردگی، اختیارات کے ناجائز استعمال، کرپشن، اور افسران کی مبینہ ملی بھگت سے جاری غیرقانونی تعمیرات کی تفصیلات درج ہیں۔ رپورٹ کو کئی ہفتوں تک اسے میڈیا سے خفیہ رکھا گیا تاکہ عوام کو ادارے کی اصل صورتحال کا علم نہ ہو سکے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی میں تعمیر کی گئی 85 فیصد عمارتیں SBCA کے کمپلیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر کھڑی کی گئی ہیں، جو نہ صرف قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ شہریوں کے جان و مال کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔ یہ عمارتیں یا تو غیرقانونی اجازت ناموں کے ذریعے بنائی گئیں یا پھر افسران نے ملی بھگت سے آنکھیں بند کیں۔ رپورٹ میں متعدد ایسی مثالیں دی گئی ہیں جن میں نقشے کی منظوری 39 منزلہ دی گئی مگر تعمیر 47 منزلوں تک پہنچ گئی، اور یہ سب جعلی انجنیئرنگ سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر کیا گیا۔ اسی طرح، سنگل ونڈو اور ون ونڈو سیل جیسی سہولتوں کا بھی غلط استعمال کیا گیا، جہاں پرمٹ کی منظوری میں مہینوں تاخیر کی گئی اور رشوت کے بغیر کام نہ ہوا۔
سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ رپورٹ کے مطابق SBCA میں 78 سے زائد افسران و ملازمین ایسے ہیں جن پر سنگین الزامات ہیں۔ ان افسران نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، عدالتی احکامات کو نظر انداز کیا، اور غیرقانونی تعمیرات کی پشت پناہی کی۔ ان افسران میں نمایاں نام شامل ہیں: آصف میمن، آغا مقصود عباس، اعجاز میمن، محبوب شیخ، شکیل عباسی، فیاض سومرو، نعیم سومرو، شہاب الدین، منور احمد، سعید الدین، اشفاق لغاری، کامران کاظمی، شفیق شیخ، سجاد عباسی، فیصل شیخ، امان اللہ پنہور، سید خرم شاہ، عمران بلوچ، ناصر قریشی، اظہر نقوی، عدنان شیخ، معراج احمد، شہریار مگسی، ندیم خان، نصیر شیخ، عابد علی، شعیب ہارون، کامران قریشی، طارق علی، زاہد علی، ظفر شیخ، حسنین رضا، رضوان شیخ، انعام شیخ، اکبر احمد، قادر بخش سومرو، سید مظہر علی شاہ، اور سید نثار علی شاہ۔ رپورٹ کے مطابق ان میں سے کئی افسران کو ماضی میں معطل کیا جا چکا ہے، مگر بعد میں بحال کر کے دوبارہ اہم عہدوں پر تعینات کر دیا گیا، جس سے شفافیت پر سوال اٹھتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ 2011 سے 2015 کے درمیان ادارے میں بغیر اشتہار، انٹرویو یا اہلیت کے سینکڑوں افراد کو سیاسی اور ذاتی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا، جن کی تعلیمی قابلیت اور پیشہ ورانہ تربیت کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ ان بھرتیوں نے ادارے کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا اور غیر پیشہ ورانہ عناصر کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افسران نے اثاثہ جات ظاہر کرنے کے لیے لازمی فارم تک فراہم نہیں کیے، جبکہ کئی افسران بیرون ملک دورے کرتے رہے، جن کے لیے “ایکس پاکستان لیو” کی منظوری تک نہیں لی گئی۔ ان غیر ملکی دوروں کو رپورٹ میں ممکنہ منی لانڈرنگ سے تعبیر کیا گیا ہے اور ان کی فوری انکوائری کی سفارش کی گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم نے اپنی رپورٹ میں 11 اہم سفارشات پیش کی ہیں، جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ DG SBCA کی تقرری صرف میرٹ اور سلیکشن بورڈ کے ذریعے کی جائے، ہر عمارت کا نقشہ اور اجازت نامہ عمارت پر آویزاں کیا جائے، کمپلیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر عمارتوں کو پانی، بجلی، گیس کی سہولت نہ دی جائے، اور تمام بھرتیوں اور اثاثہ جات کا فوری آڈٹ کیا جائے۔
یہ رپورٹ سندھ حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بن چکی ہے۔ اگر ان سفارشات پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو یہ واضح پیغام ہوگا کہ کرپشن کے خلاف بیانات صرف دکھاوا ہیں۔ کراچی کے باسی اب مزید SBCA جیسے ادارے کی کوتاہیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ اگر اب بھی اصلاحات نہ ہوئیں تو SBCA محض ایک اتھارٹی نہیں بلکہ “تخریب کاری کا ادارہ” بن کر رہ جائے گا