اسٹیٹ بینک آف پاکستان ( ایس بی پی) نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا، بنیادی شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں کہا کہ ’مانیٹری پالیسی کمیٹی نے 27 اکتوبر 2025 کو ہونے والے اجلاس میں پالیسی ریٹ 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے‘۔
مرکزی بینک کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ زری پالیسی کمیٹی نے آج اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا، کمیٹی نے نوٹ کیا کہ ستمبر میں عمومی مہنگائی نمایاں اضافے سے 5.6 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ قوزی مہنگائی 7.3 فیصد پر برقرار رہی۔
کمیٹی نے محسوس کیا کہ وسیع تر معیشت پر حالیہ سیلاب کے اثرات گزشتہ اجلاس کے تخمینے کے مقابلے میں قدرے کم ہیں ۔ فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات محدود رہنے کا امکان ہے جبکہ رسد میں بہت کم تعطل آیا۔
اعلامے کے مطابق زری پالیسی کمیٹی کا مزید کہنا تھا کہ معاشی سرگرمیوں میں مزید تیزی آئی جس کا اندازہ بلند تعدد کے اقتصادی اظہاریوں میں زبردست نمو سے ہوتا ہے، ان تبدیلیوں کی بنیاد پر میکرو اکنامک منظرنامہ سابقہ اندازوں کے مقابلے میں بحیثیتِ مجموعی بہتر ہوا ہے، اس کے ساتھ ساتھ کمیٹی نے محسوس کیا کہ بعض عوامل کی بنا پر اس منظرنامے پر بے یقینی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
مزید بتایا کہ یہ عوامل اجناس کی متغیر عالمی قیمتوں، تجارتی ٹیرف کے سامنے آنے والے تحرکات کے ساتھ برآمدی امکانات کو درپیش چیلنج، اور ملکی غذائی رسد میں ممکنہ خلل سے منسلک ہیں۔
اس تناظر میں، اور پالیسی ریٹ میں سابقہ کمی کے اب تک سامنے نہ آنے والے اثرات کے پیشِ نظر زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا کہ آج کا فیصلہ قیمتوں میں جاری استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے موزوں ہے۔
زری پالیسی کمیٹی کے خیال میں مہنگائی کو وسط مدت میں 5 تا 7 فیصد کی حد میں مستحکم رکھنے کے لیے حقیقی پالیسی ریٹ خاصا مثبت ہے، کمیٹی نے مستقبل کے مزید دھچکوں کو جذب کرنے اور اقتصادی سرگرمی کی جاری رفتار میں اضافے میں مدد کے لیے بیرونی اور مالیاتی بفرز کی مسلسل تیاری کی اہمیت پر بھی زور دیا بشرطیکہ مہنگائی اور بیرونی کھاتے پر مزید دباؤ نہ ڈالا جائے۔
زری پالیسی کمیٹی نے مربوط اور محتاط زری اور مالیاتی پالیسیوں کی اہمیت اور درکار ساختی اصلاحات پر بھی زور دیا تاکہ پائیدار اقتصادی نمو کی طرف جاری پیش رفت کو یقینی بنایا جاسکے۔
زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا کہ بلند تعدد کے حالیہ اظہاریے نمو کی پائیدار رفتار کی نشاندہی کرتے ہیں۔ زراعت میں خریف کی اہم فصلوں کے تخمینے توقع سے بہتر رہے، نیز سٹیلائٹ سے لی گئی تصاویر بھی فصلوں کی بہتر صورتِ حال کی جانب اشارہ کرتی ہیں، مزید برآں، خام مال کی بہتر دستیابی کے ساتھ بعد از سیلاب پیداوار میں ممکنہ اضافہ آئندہ ربیع کی فصل کے لیے بہتر امکانات کی نشاندہی کرتا ہے۔
مزید بتایا کہ صنعت میں، بڑے پیمانے کی اشیاسازی میں جولائی تا اگست مالی سال 26ء کے دوران 4.4 فیصد اضافہ ہوا
اجناس کی پیداوار والے شعبوں میں مثبت پیش رفت سے توقع ہے کہ شعبہ خدمات کی سرگرمیوں میں اضافے کو مدد ملے گی، ان رجحانات کی روشنی میں گزشتہ جائزے کے مقابلے میں نمو کا منظرنامہ بہتر ہوا ہے، اور اندازہ ہے کہ حقیقی جی ڈی پی نمو پچھلے تخمینے کی حد 3.25 تا 4.25 فیصد کے بالائی نصف میں رہے گی ۔
اعلامیے میں بتایا گیا کہ ستمبر 2025ء میں جاری کھاتے میں 110ملین ڈالر کا سرپلس درج کیا گیا، جس سے مالی سال 26ء کی پہلی سہ ماہی میں مجموعی خسارہ 594 ملین ڈالر تک محدود رہا، یہ کافی حد تک کمیٹی کی توقعات کے مطابق تھا۔
زری پالیسی کمیٹی کا کہنا تھا کہ برآمدات میں معتدل اضافہ جاری رہا، جبکہ درآمدات قدرے تیز رفتار سے بڑھیں، جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھ گیا، اس کے ساتھ کارکنوں کی ترسیلات زر مستحکم رہیں، اور خالص مالی رقوم کی آمد کے باعث 17اکتوبر تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 14.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔
اعلامیےکے مطابق مجموعی طور پر مالی سال 26ء میں جاری کھاتے کا خسارہ پہلے کی تخمینہ شدہ حد جی ڈی پی کے صفر تا ایک فیصد تک رہنے کی توقع ہے، جاری کھاتے کے محدود خسارے اور منصوبہ بندی کے مطابق سرکاری رقوم کی آمد سے تخمینہ ہے کہ دسمبر 2025ء تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتری کے ساتھ 15.5 ارب ڈالر اور جون 2026ء تک تقریباً 17.8 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ جائیں گے۔
واضح رہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے پہلے ہی عندیہ دیا تھا کہ شرحِ سود میں کمی کا امکان نہیں ہے، کیونکہ مہنگائی کے حوالے سے غیر یقینی صورتِ حال اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جاری مذاکرات اس فیصلے پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی جریدے ’بلومبرگ‘ کو انٹرویو میں گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ پالیسی ریٹ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا انحصار آئی ایم ایف کے مذاکرات کے نتائج اور حالیہ سیلاب کے معاشی اثرات پر ہوگا۔
جمیل احمد نے کہا تھا کہ مہنگائی عارضی طور پر 2026 کے اوائل میں ایس بی پی کے درمیانی مدت کے ہدف 5 سے 7 فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے، تاہم موجودہ اور اگلے مالی سال کے دوران اوسطاً یہ اسی دائرے میں رہنے کی توقع ہے۔
تجزیہ کاروں اور آزاد ماہرینِ معیشت نے بھی شرحِ سود میں کمی کے امکان کو مسترد کردیا تھا، کیونکہ حالیہ مہنگائی میں اضافہ اور مرکزی بینک کا محتاط رویہ قلیل مدتی نمو کے بجائے مجموعی معاشی استحکام کو ترجیح دیتا ہے، ستمبر میں مہنگائی 3 فیصد سے بڑھ کر 5.6 فیصد تک پہنچ گئی تھی، جس کی ایک بڑی وجہ سیلاب سے پیدا ہونے والے خلل تھے۔



