تحریر:محمدعلی ابڑو
ایک زخمی صوبائے سندھ کی خاموش چیخ
سندھ ایک ایسا خطہ ہے جو تہذیب، روایت، ادب، محبت اور قربانی کی علامت رہا ہے مگر آج، یہ سرزمین اپنے ہی باسیوں کے لیے ایک قید خانہ بن چکی ہے
جیلوں سے لے کر تھانوں، بازاروں، دفاتر، حتیٰ کہ گھروں تک کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی حکومتی دعوے اور وزیروں کے بیانات اخباروں کی زینت ضرور بنتے ہیں، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ نظام مکمل طور پر بے بس ہوچکا ہے عدالتیں کمزور، انصاف مہنگا، اور سچ بولنا زندگی کا سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے
آج اگر کوئی شخص صبح گھر سے نکلتا ہے، تو شام کو خیریت سے واپسی ایک معجزہ محسوس ہوتی ہے کبھی پولیس لوٹ لیتی ہے، تو کبھی ڈاکو اغوا کر لیتے ہیں۔ کسی کو سچ بولنے کی پاداش میں جیل، کسی کو سوال اٹھانے پر گمنامی بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات تک پوری ہونا خواب بن چکا ہے۔ مگر افسوس!
سندھ پھر بھی خوشحال ہے صرف ان کے لیے جن کی جڑیں وڈیروں، بیوروکریسی، اقتداری سیاست اور کرپشن کے تالاب سے جُڑی ہیں
صوبے کی تصویر اتنی بگڑ چکی ہے کہ ہر تھانے، ہر آفس، ہر ٹینڈر کے ریٹ مقرر ہیں۔ اسپتالوں میں غریب مریضوں کو ایک گولی نہیں ملتی، مگر بااثر افراد کے پالتو کتوں کے لیے بکرے کا گوشت میسر ہے۔ ریاست کے اس تماشے میں تماشا دیکھنے والے صرف تماشائی ہی نہیں، بلکہ خاموش شریک جرم بھی بن چکے ہیں۔
سندھ کی روایات بدل چکی ہیں۔ وہ معاشرہ جو عزت دار کو عزت دیتا تھا، اب صرف دولت، طاقت اور کرپشن کی زبان سمجھتا ہے۔ بڑے چور، قبضہ گروپ، کرپٹ سرمایہ دار معاشرے کے معززین بن چکے ہیں۔ سیاسی کارکن، جو کسی دور میں نظریے اور عوامی خدمت کی بنیاد تھے، آج پارٹیوں سے باہر نکال دیے گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی جیسی جماعت، جو غریب کی آواز تھی، اب صرف سرداروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی کلب بن چکی ہے۔
پرائیویٹ اسپتال، اسکول، زمین، حتیٰ کہ سانس لینے تک پر قیمت لگ چکی ہے۔ غریب صرف بھگتنے کے لیے رہ گیا ہے۔ اٹھارہ سال کی مسلسل حکمرانی میں سندھ اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ اب دو ہی راستے ہیں: یا تو کرپشن کا حصہ بنو، یا پھر ظلم سہنے کو تیار رہو۔
آخر اس صوبے کا کیا بنے گا؟ کون آئے گا جو دادرسی کرے گا؟ کیا یہاں کبھی سچ، اصول، انصاف اور میرٹ کو بھی اہمیت ملے گی؟ یا پھر یہ صوبہ یونہی درد سہتا رہے گا، آہیں بھرتا رہے گا، اور باقی پاکستان تماشا دیکھتا رہے گا؟
یہ وقت ہے جاگنے کا۔ وقت ہے سچ بولنے کا، اور وقت ہے سندھ کو دوبارہ اس کی اصل پہچان دلوانے کا — ورنہ کل کو ہم صرف افسوس کرتے رہ جائیں گے، اور سندھ ہمیں معاف نہیں کرے گا۔